نوٹ: پاک ٹی ہاؤس طاہر بھٹی صاحب کی تحریر کو اپنی آزادی اظہار کی پالیسی کے تحت پبلش کر رہا ہے اور اس لئے بھی کہ ملک میں جاری تفریق کی روش پر احمدی کیا موقف رکھتے ہیں اسے بھی واضح طور پر قارئین کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ واضح رہے کہ ادارہ کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں ادارہ کسی قسم کا ذمہ دار ہے۔ ایڈیٹر اردو ڈیسک
تحریر: طاہر احمد بھٹی۔فرینکفرٹ، جرمنی
Image may be NSFW.
Clik here to view.
جہلم کے واقعات کے تسلسل میں مضمون کا حصہ دوم موخر کیا تھا کہ ایک تو کچھ مزید تفصیلات بھی سامنے آ جائیں اور دوسرا کچھ مزید تحمل شامل کر کے گفتگو کو معروضی اور تجزیاتی کر لیا جائے۔۔۔جذباتی تو یہ پہلے ہے ہی!
جب کوئی معین بے اصولی، غیر انسانی حد تک پہنچی ہوئی ناانصافی اور جنگل کے درندوں کو شرمندہ کرتی ہوئی بربریت احمدیوں کے خلاف اپنا مکروہ اور دوغلا چہرہ لئے گلیوں اور بازاروں میں ناچنے لگتی ہے تو خاموش شرفاء میں سے محتاط قلمکار۔۔۔سہمے ہوئے ارباب اختیار اور بے تعلق تجزیہ نگار گلی میں جھانک کے دیکھتے ہیں کہ مولوی چلے گئے ہیں اور احمدی لٹ پٹ کے اور گھر جلوا کے ربوے چلے گئے ہیں اور قانون نافذ کرنے وال ادارے اختیار بگھاررہے ہیں تو آ جاو۔۔۔مطلع صاف ہے۔۔۔۔اقلیت اقلیت کھیلتے ہیں۔۔بین الاقوامی اداروں اور سوشل میڈیا کو حقائق سے آگاہ کرتے ہیں اور وہ جو ایک غیر سیاسی، غیر آئینی اور غیر انسانی ترمیم ہم نے 1974 میں کی تھی اس کو مزید پوچا پھیر کے پاکستانی عوام کے عقائد کا حصہ بناتے ہیں۔۔۔اس پہ پھر مضامین اور تجزئے اور ٹاک شو۔۔۔میں حیران کہ جہلم واقعے پہ غریدہ فاروقی ابتسام الہی ظہیر کو لائن پہ لے کے کیا پوچھنا چاہ رہی ہیں؟۔۔۔کہ جہلم فیکٹری، مسجد اور گھروں کو آگ شریعت اور فقہ کے مطابق لگی ہے یا ابھی ایک آنچ کی کسر ہے؟؟
یہی حرکت 2010 میں لاہور واقعے کے بعد مبشر لقمان کے کھرے سچ نے کی۔۔۔کہ احمدی ترجمان مرزا غلام احمد صاحب کو ایک پروگرام میں بلا کر پھر دو پروگراموں میں مولوی بلا کر یکطرفہ زہر اگلوا دیا۔
پہلا حصہ پڑھیے:ارباب اختیار کے لئے کسوٹی
پاکستان کے اہل دانش اب یہ رویہ بدلیں۔۔۔۔ترمیم کو ابھی رہنے دیں۔۔وہ سر دست آپ کے بس میں نہیں۔
مجھے تاریخی تناظر میں کچھ کہنا ہے اور سماجی اور سیاسی حوالے سے کچھ پوچھنا ہے اور اس سارے عمل میں مذہبی حوالے پہ کاغذ نہیں چپکانا بلکہ اس کوڑھ کو واضح کرنا ہے اور آپ سے معذرت خواہانہ انداز میں منمنانہ نہیں بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کرنی ہے۔۔۔۔۔تہذیب کے ساتھ تبادلئہ خیال کرنا ہے اور آپ کے ذہن میں جو اقلیت کا خناس سمایا ہوا ہے اس سے مکالمہ کرنا ہے۔ اس لئے یہ مضمون اسی تناظر میں دیکھئے۔ میں جماعت احمدیہ کا ترجمان نہیں ہوں مگر چالیس سال سے ایک احمدی کے طور پر یہ تماشے دیکھ رہا ہوں اور بیس سال ربوہ اور بیس سال اسلام آباد میں رہ کر قریب سے دیکھ، پڑھ اور سن رہا ہوں۔ منو بھائی کے مطابق۔۔
درداں کولوں لوؤشھادت
زخماں توں تصدیق کرا لو
ساڈے ایس مقدمے اندر۔۔۔
سانوں وی تے گواہ بنا لو۔۔۔!
(درد سے لو شہادت، زخموں سے تصدیق کروالو، ہمارے اس مقدمے میں ، ہمیں بھی تو گواہ بنالو!)
جناب تقسیم سے پہلے قائد اعظم سے علماء ہند کے وفد نے یہی درخواست کی کہ احمدیوں کو آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت سے خارج کیا جائے۔۔(سیاسی طور پر دائرہ اسلام سے خارج کی طرف پہلا قدم)
لیکن انھوں نے نہ صرف انکار کر دیا کہ جو خود کو مسلمان کہتا ہے میں اس کو کیوں نکالوں۔۔۔؟بلکہ 1931 کے سال میں آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر سر ظفراللہ خاں کو بنا دیا جو احمدی تھے۔ آپ کو کبھی نہیں بتایا گیا مگر آپ نیشنل آرکائیوز سے جا کر تصدیق کر لیں۔
پھر اس کوشش کا پاکستان میں 1953 سے بھر پور آغاز ہوا مگر ایک فرق کے ساتھ کہ دولتانہ نے مولوی خریدے اور پریس کے کچھ اخبار اور لکھاری مگر 1953 کی تحریک میں مولوی سیاستدان کی پتلی تھے اور آشیر باد کے لئے دولتانہ کے دست نگر تھے۔ مفادات کا کھیل تھا اور جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کے مطابق اسلام ایک حربہ تھا جسے مولوی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے تھے۔ حمید نظامی، م۔ش۔اور عبدالمجید سالک جیسے قامت آزاد تھے اور ریاست مولوی کے ساتھ مجموعی طور پر مل نہیں چکی تھی۔۔۔عدلیہ احمدیوں کے بارے میں فیصلے محفوظ نہیں کر لیتی تھی بلکہ شائع ہوتے تھے اور آرمی کو ابھی ضیاالحق جیسی قیادت نصیب نہیں ہوئی تھی اس لئے محدود اور منی مارشل لاء سے کام چل گیا اور تحریک ِختم ِنبوت کے مولوی عبدالستار نیازی کو برقعے کی جگہ دیگ میں چھپ کر لاہور سے فرار ہونا پڑا۔
پھر 1973 آیا اور اس سے قبل بھٹو احمدیوں کی ملک گیر مدد اور ووٹ سے 1970 کا الیکشن جیتا مگر بدلہ مسلم لیگ کی طرح دیا۔۔مگر ایک فرق کے ساتھ۔
اب کی بار مولوی بھٹو کے ایجنٹ نہیں تھے۔۔بلکہ بھٹو مولویوں کے ہاتھ میں کھیلنے پہ راضی ہوگئے۔۔۔گھٹنے ٹیک دئے۔ پاکستان کا سب سے پہلا سیاسی طور پر مضبوط ترین وزیر اعظم مولویوں کے ہاتھ میں کھلونا بنا اور پاکستان کی اسمبلی اپنا سیاسی اور آئینی کردار ادا کرنے میں ناکام ہوئی۔اور یہ بات میں اس وقت کے ایک سینئر راہنما سینیٹر تاج حیدر کو ایک اکیڈیمک گفتگو میں کہ چکا ہوں اور ان کی فکری دیانت کو سلام کے وہ اس کو مان بھی گئے۔۔تفصیل پھر کبھی۔
لیکن اس آئینی ترمیم کی زبان بتاتی ہے کہ بھٹو صاحب اور اسمبلی ممبران کے ضمیر پر ہونے والے ظلم کا بوجھ ضرور تھا اور بد لحاظی اور بے حیائی نہیں تھی۔
مگر 1984 کے ضیالحق کے امتناع قادیانی آرڈیننس نے بے حیائی پہ فخر کرتے ہوئے سیاسی اور مذہبی حدود کو پھلانگ لیا۔
بھٹو اسمبلی نے یہ کہا کی پارلیمنٹ آف پاکستان آئینی و قانونی اغراض کے لئی احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتی احمدی خود کو سمجھتے ہیں تو ان کا حق ہے کہ وہ خود کو مسلمان سمجھتے رہیں۔۔مگر ضیاء کے آرڈیننس نے کہا کہ نہیں ۔۔۔۔تم قانون کی رو سے پابند ہو کہ خود کو وہ سمجھو جو ہم کہتے ہیں۔
عام آدمی کے لئے سلیس ترجمہ یہ ہے۔
بھٹو کی اسمبلی نے کہا کی ہم آپ کو کتا سمجھتے ہیں۔۔۔ضیا آرڈیننس نے کہا کہ چونکہ پاکستانی پارلیمنٹ آپ کو کتا قرار دے چکی ہے اس لئے بھونکا بھی کرو ۔۔۔۔اور اگر انسان کی طرح عمل کرو گے تو تین سال جیل اور جرمانہ۔
تو جناب یہ ہے آپ کی آئین سازی اور یہ ہے ہمارے غیر مسلم اقلیت ہونے کی پاکستانی تاریخ۔۔۔۔۔جس پہ آپ کو ناز۔۔۔۔۔اور ہمیں بھی ناز ہے۔
انھیں یہ زعم کہ رکھتے ہیں طاقت و کثرت
ہمیں یہ ناز۔۔۔بہت ہے خدا ہمارے لئے
اس طرح پہلے یکطرفہ، ظالمانہ فیصلے کئے جاتے ہیں اور پھر ان سیاسی اقدامات کو جن کی دنیا میں کوئی آئین مثال نہیں پیش کرتا انھیں آئینی قرار دے کر موجود نسلوں کے سامنے وہ جھوٹ پیش کر دیا جاتا ہے جس کی تاریخ اور حقائق تصدیق نہیں کرتے۔
اس کے متوازی کیا ہوا۔۔فرخ پتافی نے آج ہی لکھا کی ہم ایک نسل کا امتیازی سلوک نہیں بھولے۔۔۔یہ ایک تجربہ ہے۔ مذہب میں پہلے جھوٹ سیاسی انداز میں داخل کیا جب متوازن ذہن ردعمل دکھانے لگے تو ہمارے کلاس فیلو کہا کرتے تھے۔۔” مذہب نوں چھڈو۔۔۔میں تے انسانیت تے ایمان رکھنا واں” (مذہب کو چھوڑو ۔۔۔ میں تو انسانیت کی پر ایمان رکھتا ہوں )
کل میں نیوزی لینڈ میں ڈاکٹریٹ کے ایک پاکستانی سٹوڈنٹ سے یہی کہ رہا تھا کہ مذہب آپ کے مولوی نے برباد کر دیا اور آپ تیس سال تک انسانیت کے پیچھے چھپتے رہے تا کہ مولوی کو برا کہنے کی کڑوی گولی نگلنے سے بچ جائیں۔۔۔تو جہلم جیسے واقعات نے آپ کے معاشرے میں موجود انسانیت کا بھی پول کھول دیا۔ اب ذرا سیدھی اور سچی باتوں کی طرف آئیں۔
سیاسی اور سماجی طور پر ۔۔۔۔
1۔ احمدی کبھی بھی ملک کے خلاف کبھی بھی ملوث نہیں پائے گئے۔
2۔ انتہائی منظم ہیں مگر کبھی بھی ایسا ردعمل نہیں دکھاتے جو حکام کے لئے مصیبت بنے۔
3۔ ایک مثال بھی نہیں کہ کسی کے کبھی بھی آلہ کار بنے ہوں۔
4۔ کبھی بھی غیرملکی یا ایسے فنڈز میں ملوث نہیں ہوئے جن کی شفافیت پہ کوئی حرف رکھا جا سکے۔
5۔انفرادی اور اجتماعی طور پر جب بھی ملک یا اہل پاکستان پہ مشکل وقت آیا احمدیوں نے ہر ممکن طور پر ساتھ دیا ہے۔
6۔ بد ترین بد سلوکیوں اور مظالم پر بھی احمدی لیڈر شپ نے ہمیشہ جماعت کو صبر کی تلقین کی اور کبھی بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی۔
7۔ پاکستان میں جماعت احمدیہ واحد مذہبی جماعت ہے جو 1948 سے مسلسل اپنا آڈٹ خود کرواتی ہے اور آج تک حکومت کی نظر میں ایک بھی بے قاعدگی کی مرتکب نہیں۔۔۔۔مگر ہے کافر اور منکر ِاسلام۔۔۔1965 کے تمام محاذوں پر احمدی جرنیل مگر جہاد کی منکر۔۔۔۔
او خدا کے بندو۔۔۔۔۔ہم تو صرف آپ کے اس دور کے مولوی کے منکر ہیں۔ ہم نے سمیع الحق، فضل الرحمن ، مفتی محمود اور مودودی کے منکر ہیں۔۔۔جن کی پیروی آپ کو ان انتہا پسندوں تک لے آئی ہے جن سے چھٹکارے کے لئے آپ کو فوج طلب کرنی پڑی ہے۔
بتائیں اپنی نسلوں کو کہ کیا حامد میر۔۔عامر لیاقت۔۔کاشف عباسی۔۔۔وسیم بادامی۔۔۔جاوید چوہدری اور مجیب الرحمن شامی۔۔۔حتیٰ کہ ڈاکٹر شاہد مسعود بھی مانتے مولوی کے اسلام کو ہی ہیں مگر جب جب شورش ہوتی ہے توسارے ہی مولوی کے سامنے کان لپیٹ لیتے ہیں۔۔۔اور سانحہ ہو تو پروگرام بھی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو واضح طور پر کھل کے کہہ سکے کہ مذہبی، سیاسی، سماجی، آئینی اور میڈیا کی تمام تر کوشش کے باوجود سوا سو سال سے ہم احمدیت کو ختم بھی نہیں کر سکے،ترقی کو بھی نہیں روک سکے اور اسلام سے ان کا عملی ناطہ بھی نہیں توڑ سکے۔تو جب آج تک حاصل بھی کچھ نہیں ہوا سوائے ظلم کے داغوں کے تو اب بس کریں۔
ہم پر ہوئے ہر ظلم کے بعد آپ اسلام کی خوبصورتی اور خوبیوں سے اور دور ہو جاتے ہیں اور ملک مزید تنگ نظری اور تعصب کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ہمارا نقصان تو آپ آج تک نہ کرسکے ۔۔اس لئے اب خود کو بچائیں اور اپنی نسلوں کو پرامن اور ترقی کرتا ہوا مستحکم پاکستان دینے کا سوچیں۔
سیاستدان تو شائد اب بھی نہ بتائے مگر میں بتا دیتا ہوں کہ۔۔۔
پاکستان اگر ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو دور کا امکان تھا کہ احمدیوں اور دیگر ترقی پسند طبقات کو مولوی کی خیالی شریعت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا اور ملک ان باہم متحارب پاکستانی ظالمان کو مل جاتا جو آخر کار اس کو شام بنا کے ہی رھہے لیکن اب یہ ناممکن ہے۔
اور اہل پاکستان۔۔۔صحافی۔۔۔دانشور اور سیاسی و عسکری قیادت اس بات پہ غور ضرور کر لے کہ جو مولوی 1974 کی ترمیم اور 1984 کے آرڈیننس پہ راضی نہیں ہوا یہ قادیانی ووٹر لسٹ۔۔شریعت کے نفاذ اور مرتد کی سزا قتل پہ بھی نہیں مانے گا۔
اس کو ملک۔۔عوام۔۔۔ادارے۔۔۔عدلیہ۔۔۔میڈیا۔۔۔افواج اور اقتدار سب کچھ چاہئے۔۔یہاں تک کہ ایٹم بم بھی۔۔!!!
سوچ لیں ۔۔۔۔کیا آپ دے سکتے ہیں۔ کبھی نہیں۔۔تو پھر احمدیوں اور تمام ترقی پسند اور امن پسند پاکستانیوں کا تحفظ کریں اور ریاست اور دھرتی کی مادرانہ ذمہ داری ادا کریں ۔۔۔بچوں پہ حملہ ہو تو مرغی کی جرات بھی دیکھنے والی ہوتی ہے آپ تو سٹیٹ ہیں۔!
میں نے لکھ تو دیا ہے حصہ دوم اب آپ تک پہنچانا تو آزاد میڈیا نے ہے۔۔۔۔۔یا پھر سرگوشیوں نے۔